March 14, 2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم ﷺ                                                                                      و
علیٰ عبدہ المسیح الموعود ؑ

مقلدین اور غیر مقلدین کی
اسلامی تاریخ  اور نظریات

خواجہ عبدالعظیم احمد ، واقف
زندگی۔یوکے

یہ مضمون دراصل
مبلغین کینیڈا و دیگر ممالک جنوبی امریکہ کےریفریشر کورس   میں مؤرخہ 9 مئی 2023 بروزمنگل پڑھا گیا
تھا۔ احباب کرام کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

 

تقلید کے لفظی معانی

لفظِ
 تقلید – ق ل
د کے مادہ سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔اگر لغت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو جس مادہ میں
ق اور ل موجود
ہوں گے ان میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف انتقال کا معنیٰ  مشترک ہو گا۔ مثلاً
قلب  میں پھرنا یا پھیرنا کا معنیٰ ہے۔ قلت میں
زندگی کے بعد ہلاک ہونے کا معنیٰ ہے۔
قلح میں صاف دانت ہونے
کے بعد ان پر زرد رنگ چڑھنے کا معنیٰ ہے۔
قلخ اور قلع  میں درخت کا اپنی جڑ پر مستحکم رہنے کے بعد
اکھڑنے کا معنیٰ ہے۔
قلص میں جی کا ہشاش بشاش ہونے کے بعد متلا جانے
کا معنیٰ ہے۔ وغیرہ وغیرہ  ۔
قلد میں
رسی بٹنے،  لوہے کو گرم کر کے موڑنے ،
تلوار کو حمائل کرنے کے معانیٰ ہیں جو کہ ایک 
Stable
 حالت سے دوسری حالت کی طرف
منتقل ہونے کے معنیٰ کے غماز ہیں۔ اب ہم اس مادہ کے باب تفعیل میں استعمال
ہونے  کے بعد اس میں پیدا ہونے والےمعانی
کا جائزہ لیں گے۔

لغت
کہتی ہے
التقلید
عند النصاریٰ

: نصرانیوں کی سینہ بہ سینہ مذہبی باتیں۔اور تقلید کا اطلاق اس شاہی فرمان پر بھی
ہوتا ہے جو پیروی حکم کے لئے جاری ہوتا ہے۔

تقلید کے اصطلاحی
معانی

مقلدین
اور غیر مقلدین کے درمیان تقسیم اسلامی تاریخ 
کا ایک اہم پہلو ہے اور اس نے مسلمانوں کو اپنے عقیدے کو سمجھنے اور اس پر
عمل کرنے کے طریقے کو تشکیل  کرنے میں مدد
دی ہے۔ ان دونوں گروہوں کی تاریخ، عقائد اور طریقوں کو سمجھنے سے ہمیں اسلامی
تاریخ  کے تنوع اور ان مختلف مذاہب (فقہی)  کے بارے میں گہری سمجھ حاصل کرنے میں مدد مل
سکتی ہے کہ کس طرح مسلمانوں نے اپنے عقائد 
کی تشریح کی اور  اسےکیسے اپنی
زندگی میں ڈھالا۔

اس سے پہلے کہ ہم
تقلید کے اصطلاحی معنیٰ کو دیکھیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ آج کی
اسلامی دنیا میں مسلمانوں کو دو بنیادی اقسام میں منقسم کیا جا تا ہے ان میں سے
ایک کو مقلدین اور دوسری قسم کو غیر مقلدین کہا جاتا ہے۔ اسلامی فقہ کی رو سے
اسلام میں پانچ مکتبہ ہائے فکر ہیں۔ جن میں احناف (حضرت امام ابو حنیفہ  کے ماننے والے)، شوافع (حضرت امام  شافعی 
کے ماننے والے) حنابلہ (حضرت امام احمد بن حنبل  کے ماننے والے)،  مالکیہ (حضرت امام مالک   کے ماننے والے) اور جعفریہ (حضرت امام جعفر
الصادق   کے ماننے والے) شامل ہیں۔

معروف
طور پر بریلوی  ،دیوبندی اور تبلیغی
جماعت  وغیرہ  احناف کہلاتے ہیں ۔
احناف زیادہ
تر
وسطی ایشیا، افغانستان،
پاکستان، ہندوستان، بنگال، جنوب مغربی مصر، عراق، ترکی اور روس میں موجود ہیں۔
شوافع سعودی عرب، زیریں
مصر، انڈونیشیا، اردن، فلسطین، فلپائین، سنگاپور، صومالیہ،
 تھائی لینڈ، یمن، کردستان ، کیرالہ کے موفلا اور
بھارت کے کوکانی مسلمان اس مذہب کے پیرو ہیں۔ برونائی دارالسلام اور ملائیشیا کا
یہ سرکاری مذہب ہے۔
اور حنابلہ قطر، عراق اور شام کے کچھ
جبکہ سعودی عرب کے زیادہ تر مسلمان اس مذہب کے پیرو ہیں۔
مالکیہ  شمالی و مغربی افریقہ، متحدہ عرب امارات، کویت، بالائی مصر اور سعودی عرب کے زیادہ تر مسلمان اس مذہب کے پیروکار ہیں۔ اور
دنیا میں جہاں جہاں بھی اہل التشیع ہیں وہ فقہ
جعفریہ جس کو
مکتبہ اہل بیت بھی کہا جاتا ہے کی پیروی کرتے ہیں۔

اب ہم تقلید کے اصطلاحی معنیٰ کو دیکھتے
ہیں۔

آجکل کی عرب دنیا
کے معروف عالم علامہ الشنقیطی ایک جگہ تقلید کی تعریف لکھتے ہیں:۔

قبول
قول القائل بلا حجة”                  
(شرح الورقات في أصول الفقه جلد 5 صفحہ 24)

یعنی  کسی کہنے والے امام کے قول کو بغیر حجت یا دلیل
طلب کئے قبول کر لینا۔

قاضی محمدعلی صاحب اپنی کتاب موسوعہ
کشف اصطلاحات الفنون میں اس کی تعریف لکھتے ہیں:۔

التقلید اتباع الانسان
غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل

یعنی  تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے
قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔(کشف اصطلاحات
الفنون:۱۱۷۸)

آجکل کے بعض علماء
مثلاً جاوید احمد غامدی صاحب کے نزدیک تقلید کوئی دینی اہمیت کا معاملہ نہیں تھا
بلکہ ایک انتظامی معاملہ تھا۔ جب مسلم ریاست میں پھیلاؤ ہوا اور خلافت راشدہ سے
ملوکیت کی طرف سفر ہوا تو اسلام ایک ریاستی مذہب کے طور پر ابھرا ۔ اس وقت ضرورت
اس امر کی تھی کہ کون سا اسلام یا کس مکتبہ فکر کو رسمی طور پر اسلامی حکومت میں
جاری کیا جائے۔قضاۃ کس فقہی منہج کو اپنا کر فیصلے کریں گے؟ ان سوالات کے جواب میں
جہاں امام ابو حنیفہ کے متبعین کی کثرت تھی وہاں ان کی آراء کو اپنایا گیا اور
جہاں امام مالک کا اثرو رسوخ تھا وہاں ان کی فقہ کو پذیرائی ملی!

غامدی صاحب کے نزدیک
اہل علم کے لئے جو مسائل کا استخراج، استنباط اور استدلال کر سکتے ہیں تقلید ایک
گالی اور لعنت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا فائدہ صرف ان پڑھ اور کم علم لوگوں کو ہو
سکتا ہے وہ اس کو بے شک قبول کریں۔

انجینئر محمد علی مرزا
جو کہ مختلف اوقات میں مختلف فرقوں میں رہے بیان کرتے ہیں کہ بباعث( آیت
ان اتبع الا ما یوحیٰ الیّ ۔۔۔الخ)تقلید آنحضرت ﷺ
کی بھی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ جائز نہیں ۔ آنحضرت ﷺ کی بھی اتباع فرض ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے
کہ غامدی صاحب اور محمد علی مرزا صاحب کا ذکر یہاں اس وجہ سے کیا گیا کہ پاک و
ہند، بنگلہ دیش اور افغانستان کے علاوہ جہاں جہاں بھی اردو سمجھنے والے مسلمان
موجود ہیں ان کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔یوٹیوب پر ان کی ایک ویڈیو چند لمحوں میں  لاکھوں مسلمان دیکھ لیتے ہیں ۔ ان کا ایک خاص
اثر ہے۔ اس لئے ان کا ذکر یہاں مناسب ہے کیونکہ مسلمان نوجوان طبقہ ان کو سنتا ہے۔

یہ تقلید اسلام
میں کب شروع ہوئی ؟

اس سوال کا جواب
دیتے ہوئے امام شوکانی  لکھتے ہیں:۔

قال
الشوكاني رحمه اللَّه تعالى: “إن التقليد (للمذهب) لم يحدث إلا بعد انقراض
خير القرون، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، وإن حدوث التمذهب بمذاهب الأئمة
الأربعة، إنما كان بعد انقراض عصر الأئمة الأربعة، وإنهم كانوا على نمط مَنْ
تقدمهم من السلف في هجر التقليد، وعدم الاعتداد به، وإن هذه المذاهب إنما أحدئها عوام
المقلدة لأنفسهم من دون أن يأذن بها إمام من الأئمة المجتهدين

امام شوکانی کہتے ہیں، 
کسی خاص مذ
ہب(یعنی
مکتبہ فکر ) کی تقلید خیر القرون   کے ختم
ہونے پر ہوئی۔ (یہاں امام شوکانی  بین
السطور ایک حدیث کی طرف اشار ہ کر رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ
 
خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم
، یعنی میری صدی بہترین ہے اس کے بعد
درجہ بدرجہ جو مجھ سے قریب تر ہو گا وہ بہتر ہو گا۔

تقلید کی تاریخ

مقلدین اور غیر مقلدین کے درمیان تقسیم کی ابتداء  اسلام کی ابتدائی صدیوں سے کی جا سکتی ہے جب
مختلف مکاتب فکر نے جنم لینا شروع کیا۔ کچھ علماء، جیسے امام ابو حنیفہ، نے اپنے
قانونی طریقہ کار اور مکاتب فکر تیار کیے، جب کہ دیگر، جیسے امام مالک، نے روایت
کی اہمیت اور مدینہ کے لوگوں کے عمل پر زور دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ مکاتب فکر
مزید رسمی اور ادارہ جاتی ہو گئے، جس کے نتیجے میں چار اہم سنی مکاتب فکر کی ترقی
ہوئی۔ کچھ تاریخی روایات میں اس تصور کے ظہور کا پتہ چلتا ہے کہ اسلامی کیلنڈر کی
چوتھی صدی کے دوسرے نصف کے دوران ، سقوط بغداد تک ۔ یہ وہ دور تھا جب فقہا نے
مشہور مکاتبِ شریعت (مذہبی) کے طریقوں کو قبول کیا۔ باوجود اس کے کہ اس دور کے
فقہاء کو اجتہاد کرنے کا موقع ملا کیونکہ قرآن ان کے پاس تھا اور اس وقت رسول اللہ
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام روایات مرتب ہوچکی تھیں۔ مزید یہ کہ فقہاء کا
فریضہ آزادانہ  اجتہاد کرنا ہے۔ لیکن اس
دور کے فقہاء کی اکثریت  اپنے اجتہادکے
طریقوں کو اپنے سے پہلے کے فقہاء کے مقابلے میں بہت کمزور سمجھتے تھے۔
(مدخل
الفقہ الاسلامی از محمد عبدالسلام ، دار علقمیہ ۔ صفحہ  14)

ساری  اسلامی
تاریخ میں مقلدین اور غیر مقلدین کے درمیان مناظرے اور اختلاف ہوتے رہے ہیں۔ مثال
کے طور پر 18ویں صدی میں عرب میں وہابی تحریک کے نام سے ایک اصلاحی تحریک ابھری جس
نے چاروں  سنی مکاتب ہائے  فکر  کو
مسترد کر دیا اور قرآن و سنت کی خالص تعلیمات کی طرف واپسی کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح
برصغیر پاک و ہند میں اہل حدیث کے نام سے ایک تحریک چلی جس نے ایسے ہی ان
چاروں  سنی مکاتب ہائے  فکر  کو  رد کیا اور قرآن و سنت کی براہ راست پیروی کی
اہمیت پر زور دیا۔

ان چار مکاتب ہائے فکر کے فرق کی وجوہات

اس جگہ یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ اگر شریعت محمدی ﷺ ایک تھی تو ان ائمہ فقہ (جن کو ائمہ اربعہ کہا
جاتا ہے) کے درمیان اختلاف کیونکر آیا؟ تو اس سوال کے جواب میں ان چاروں ائمہ کے
سنت نبوی ﷺ معلوم کرنے کے طریق کو جاننا چاہیئے۔

حضرت
امام ابو حنیفہ  چونکہ کوفہ سے تعلق رکھتے
تھے۔ اور کوفہ میں مدرسہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو خاص اہمیت دی جاتی
تھی۔اس مدرسہ  کو اہمیت
دیئے جانے
کی بعض وجوہ تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اولون سابقون میں
سے تھے۔دوسری وجہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے اپنے دور خلافت میں آپکو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوفہ بھیجا اور ساتھ
کہا کہ” اگر عمر کو بھی کسی مسئلہ میں راہنمائی چاہیئے ہو تو عمر بھی عبداللہ
بن مسعود سے پوچھتا ہے۔”

تیسری
وجہ حضرت عبداللہ بن مسعود  کے مدرسہ کے
اہم ہونے کی یہ بھی تھی کہ آپ کے گھر والوں کو آنحضرت ﷺ کے زمانہ اقدس میں آپﷺ کے
گھر تک رسائی تھی۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ حضرت عبداللہ بن
مسعود اہل بیت میں سے ہیں۔اس لئے بھی آپ کے مدرسہ اور آپ کی بتائی ہوئی سنت کو
امام ابو حنیفہ نے بہت اہمیت دی۔امام ابو حنیفہ نے سنت معلوم کرنے کے لئے ان تین
وجوہ کی بناء پر حضرت عبداللہ بن مسعود کو ایک بڑا ذریعہ سمجھا۔

حضرت
امام مالک نے سنت کو معلوم کرنے کا یہ طریق سمجھا کہ چونکہ آنحضرت ﷺ کے زندگی کے
دس سال  مسجد نبوی میں گزرے  اور وہیں آپﷺ کی وفات ہوئی تو اس لئے  سنت قائمہ وہیں پر اپنی محفوظ اور مکمل صورت
میں موجود ہو گی، اسی طرح حضرات خلفاء راشدین نے بھی مدینہ کو ہی اپنا پایہ خلافت رکھا  تو آپﷺ نے سنت نبوی کو مدینہ میں رہنے والے
صحابہ و تابعین سے معلوم کیا اور وہیں سے روایات لیں ۔

حضرت امام شافعی
نے ان دونوں کے برخلاف احادیث کو جمع کیا اور رواۃ الحدیث  کے ثقہ، عدول اور متقن  ہونے اور روایات کے متواتر، متصل مرفوع ہونے
(یعنی روایت کے لحاظ سے حدیث کی صحت اور راوی کے لحاظ سے حدیث کی صحت ) کو ترجیح
دے کر سنت نبوی ﷺ کو معلوم کرنے کا طریق اپنایا۔ اس بناء پر اگر امام شافعی کو اہل
الحدیث کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

ایسا ہی امام احمد
بن حنبل نے کیا۔ مگر امام احمد بن حنبل نے جو کہ امام شافعی کے شاگرد بھی تھے کوچہ
کوچہ تحصیل حدیث کے لئے سفر کئے اورزیادہ پختہ 
احادیث کو بہت کثرت سے جمع کیا۔اس سلسلہ میں اتنی محنت کی کہ آپ کے استاد
حضرت امام شافعی نے ایک بار آپ سے متعلق کہا،

قال الربيع بن سليمان: قال لنا
الشافعي: أحمد إمام في ثمان خصال: إمام في الحديث، إمام في الفقه، إمام في اللغة،
إمام في القرآن، إمام في الفقر، إمام في الزهد، إمام في الورع، إمام في
السنة”

یعنی الربیع
بن سلیمان کہتے ہیں کہ  حضرت امام  شافعی نے ہمیں بتایا: احمد بن حنبل  آٹھ صفات میں امام ہیں: حدیث میں امام، فقہ میں
امام، زبان میں امام، قرآن میں امام، فقرمیں امام۔ زہد میں امام، تقویٰ میں امام،
سنت میں امام ہیں۔

چونکہ ائمہ اربعہ
نے سنت نبوی ﷺ کو معلوم کرنے کے مختلف 
طرق  اپنائے اس لئے ان کے مذاہب فقہ
میں اختلاف در آیا۔

مقلدین کے تقلید
کی اہمیت کے بارہ میں دلائل

سنی احناف کے
جنوبی ایشیا میں بنیادی طور پر دو گروہ ہیں،

1۔ بریلوی  گروہ کے بانی مولوی احمد خاں رضا بریلوی(1856تا1921
) جن کو برصغیر کے مسلمان اعلیٰ حضرت کے نام سے پکارتے ہیں۔آپ نے  دارالعلوم بریلی کی بنیاد   1904ء میں رکھی۔پاکستان میں اس گروہ کی معروف
شخصیات میں پیرقمر الدین سیالوی ،پیر مہر علی شاہ گولڑوی ،شاہ احمد نورانی،مولانا
عبدالستار خان نیازی، جامعہ نعیمیہ کے سرفراز احمد نعیمی، حامد رضا کے والد
صاحبزادہ فضل کریم،پیر محمد کرم شاہ،شاہ تراب الحق قادری،محمد الیاس قادری،اشرف
آصف جلالی، اور خادم حسین رضوی وغیرہ ہیں۔

2۔ دیوبندی گروہ
کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب(1833تا  
1880)  ہیں۔آپ نےدارلعلوم دیوبند کی
بنیاد 1866 ء میں رکھی۔اس گروہ کی قابل ذکر شخصیات میں امداد اللہ مہاجر مکی، رحمت
اللہ کیرانوی، احمد علی سہارنپوری، رشید احمد گنگوہی ،محمد علی مونگیری ،محمود حسن
دیوبندی خلیل احمد انبہٹوی ،  اشرف علی
تھانوی ، عبیداللہ سندھی ،سید محمد انور شاہ کشمیری،کفایت اللہ دہلوی ، محمد الیاس
کاندھلوی، شبیر احمد عثمانی ،محمد ادریس کاندھلوی، محمد زکریا کاندھلوی ، مولانا
طارق جمیل ،مفتی محمود اور مولوی فضل الرحمن وغیرہ ہیں۔

تقلید اور مقلدین

·     
بریلویوں کے نزدیک۔۔۔
احمد خاں رضا بریلوی جنہوں نے بریلوی مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی نے اپنی وفات سے قبل
ایک وصیت تحریر کی جس میں آپ نے نہ صرف احناف کی تقلید کو لازم قرار دیا بلکہ اپنی
تقلید کو بھی ضروری قرار دیا۔فرماتے ہیں:۔

 ’’میرا دین و مذہب (مکتبہ فکر)جو میری کتب سے ظاہر ہے، اس پر
مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے ۔
‘‘ (وصایا شریف  ،ص18،انجمن
انوار قادریہ کراچی)

اسی لئے جب ہم کسی بریلوی عالم سے ان
کی علمی حلقہ ارادت کے متعلق پوچھیں وہ کہتا ہے کہ “میں سنی،حنفی، ما تریدی،
بریلوی ہوں”

·      دیوبندیوں
کے نزدیک

“جو
شخص اپنے اندر اجتہاد کے تمام شرائط رکھتا ہے، قرآن وحدیث کے تمام علوم پر عبور
رکھتا ہو، مسائل کے استنباط اور تخریج کے تمام اصول وقواعد اور ان کے طریقہٴ کار
میں مہارت تامہ رکھتا ہو، اس کے لیے تقلید کی کوئی ضرورت نہیں وہ اپنے اجتہاد سے
جو کچھ مسائل کی تخریج کرے گا وہی اس کے لیے کافی ہے، وہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید
کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ مذکورہ اوصاف کے حامل نہیں ہیں، ان کے لیے ائمہ
اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا از بس ضروری ہے، علماء نے لکھا ہے کہ چوتھی
صدی ہجری تک تو علماء مجتہدین پیدا ہوتے رہے، مگر چوتھی صدی ہجری کے بعد سے یعنی
ایک ہزار برس سے کوئی مجتہد دنیا میں پیدا نہیں ہوا، لہٰذا چوتھی صدی ہجری کے بعد
سے ہرشخص کے لیے خواہ وہ عالم ہو یا نہ ہو، ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید
کرنا واجب اور ضروری ہے، اگر کوئی تقلید نہ کرے گا تو وہ شریعت کو کھیل تماشا
بناکر رکھ دے گا۔ بلکہ آزادی اور دہریت کی طرف بڑھنے لگے گا۔” (دار العلوم
دیوبند زیر نمبر فتوی: 1318-255
/B=7/1433)

مقلدین کے عقائد و
نظریات

اس سے قبل کہ ہم
مقلدین کے عقائد کا جائزہ لیں ہمیں یہ بات دیکھنی ہو گی کہ کیا ان مقلد گروہوں کا
آپسی اختلاف صرف فقہی یا فکری حد تک تھا؟

اس کا جواب ہمیں
تاریخ میں بہت بھیانک طور پر ملتا ہے۔ اس بنیادی فقہی یا فکری اختلاف نے مسلمانوں
کے اتحاد کی چولیں ہلا دیں۔ ایک دوسرے کو کافر، زندیق مرتد اور نہ جانے کیا کچھ
کہا گیا ۔یہ اختلاف احناف  اور دیگر مکتبہ
ہائے فکر کے مسلمانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ احناف آپس میں بھی ایک دوسرے کے جانی
دشمن بن گئے۔ احناف کے فتاویٰ کی برچھی سے خود احناف بھی لہولہان ہوئے۔ دار العلوم
بریلی کے حنفی سربراہ احمد خاں رضا بریلوی صاحب نے دیوبندی حنفیوں کو اپنی کتاب
حسام الحرمین میں
آڑے ہاتھوں لیا۔ یہاں حسام الحرمین پر ہی بس نہ ہوئی بلکہ  حنفی دیوبندیوں نے حنفی بریلویوں کے خلاف
المھند علیٰ
المفنّد

(یعنی ہند کی ایک صیقل تلوار پاگل بڈھے کے سر پر)لکھ ماری ۔ اس طرح یہ فکری یا
فقہی اختلاف اتنا بڑھا کہ  اس نے ہزاروں
گھروں کے چراغ گل کر
دیئے۔ ان کے سرکردہ علماء کے بچے تو یورپ و
امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے رہے مگر غریب کا بچہ کبھی جہادِ رشیا  کا مجاہد ہو کر مرا اور کبھی جہادِ  امریکہ کا مجاہد ہو کر مرا!

بریلوی
احناف

میں بھی کافی تقسیم در تقسیم ہوئی ۔ ایک گروہ کو مولانا الیاس قادری
leadکر رہے
ہیں جن کا
Stance  قدرے نرم سمجھا جاتا ہے تو اس کے برعکس تحریک
لبیک پاکستان جس کے بانی خادم حسین رضوی اورآجکل ان کے پسر
lead
کر رہے ہیں۔ یہ
 انتہاء
پسند تحریک ہے۔ ڈاکٹر  طاہر القادری صاحب
کی منہاج القرآن بھی احناف سے تعلق رکھتی ہے گو کہ اکثر بریلوی نظریات میں ڈاکٹر
صاحب کے تفردات بھی مشہور ہیں۔ ایسے ہی
دیوبندی احناف میں
حیاتی دیوبندی بھی ہیں اور مماتی دیوبندی بھی۔حیاتی دیوبندی آنحضرت ﷺ کے قبر مبارک
میں زندہ ہونے کے قائل ہیں جبکہ مماتی آپؐ کے زندہ ہونے لے قائل نہیں۔ایسا ہی
دیوبندیوں میں مولانا عبیداللہ سندھی کا 
روس پسند کمیونسٹ غیر جہادی گروپ ہے اور ایک جہادی گروپ (مثلاًسپاہ صحابہ
وغیرہ) کا بھی ہے۔ ان دیوبندیوں میں تبلیغی جماعت والے بھی ہیں جن میں ایک گروہ
مجلس شوریٰ پر یقین رکھنے والاشورائی ہے (جس میں مولانا طارق جمیل وغیرہ ہیں  اور ان کی اکثریت پاکستان میں ہے) اور
دوسرا  امارت پر یقین رکھنے والا  اماراتی گروہ ہے جس کی اکثریت انڈیا میں ہے۔اسی
طرح دیوبندیوں میں اسلامی بینکاری پر بھی دو گروہ منقسم ہیں جامعہ بنوریہ والے اسلامی
بینکاری کے خلاف ہیں جبکہ مولانا تقی عثمانی وغیرہ اس کے حق میں ہیں۔

انہی
احناف میں
جماعت
اسلامی

بھی
ہے(گو مولوی مودودی صاحب کفایت اللہ دہلوی کے شاگرد تھے جو کہ دیوبندی تھے اس بناء
پر ان کےزیادہ عقائد دیوبندی عقائد جیسے ہیں) جماعت اسلامی میں بھی آگے ٹوٹ پھوٹ
ہوئی۔ ایک تو خالص مودودی صاحب کی موومنٹ ہے اور پھر ڈاکٹر اسرار صاحب کی کچھ
مختلف مگر اسی کا
 Offshoot ہے۔ ایسا ہی ایک  Off shoot انڈیا میں مولانا وحید الدین خاں صاحب نے
شروع کیا۔

مختصراً ہم اب
مقلدین کے عقائد کو ایک نظر دیکھتے ہیں۔

·     
عقیدہ نور و
بشر   (اس عقیدہ میں دیوبندی احناف ان سے
برعکس عقیدہ رکھتے ہیں۔)

·     
عقیدہ حیات محمدی
ﷺ(اس عقیدہ میں دیوبندی احنافکے دو گروپ ہیں ایک حیاتی اور دوسرا مماتی )

·     
عقیدہ شفاعت (اس
عقیدہ میں دیوبندی احناف قدرے نرم عقیدہ رکھتے ہیں۔)

·     
عقیدہ شاہد و ناظر
(اس عقیدہ میں دیوبندی احناف ان سے برعکس عقیدہ رکھتے ہیں۔)

·     
عقیدہ توسل  (اس عقیدہ میں دیوبندی احناف ان سےقدرے
نرم  عقیدہ رکھتے ہیں۔)

·     
تصوف  (دونوں میں اس کے قائل لوگوں کے گروہ  ہیں مثلاً اشرف علی تھانوی صاحب وغیرہ)

·     
زیارت مزارات
(دونوں میں اس کے قائل لوگوں کے گروہ 
ہیں۔ایک شدید مخالف اوردوسرا مشروط اجازت دیتا ہے )

·     
عید میلاد النبی ﷺ
(بریلوی سختی سے عمل پیرا جبکہ دیوبندی صرف سیرت کے اجتماعات کرتے ہیں)

·     
محافل درود و سلام
(اس عقیدہ میں دیوبندی احناف ان سے برعکس عقیدہ رکھتے ہیں۔) 

·     
گیارہویں شریف (اس
عقیدہ میں دیوبندی احناف ان سے برعکس عقیدہ رکھتے ہیں۔)

زیادہ تر عقائد
میں بریلوی اور دیوبندی مکتبہ ہائے میں اختلاف کی وجہ سے پاکستان میں دیوبندیوں کو
اکثر وہابی بھی سمجھا جاتا ہے۔اور بریلویوں کو بدعتی کہا جاتا ہے۔

50 کی دہائی میں
جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے سیرت النبی ﷺ کو خاص طور پر منانے کی تحریک
پاک و ہند میں چلائی تو اس وقت بریلوی حضرات 
یہ کہتے تھے کہ احمدی آنحضرت ﷺ کی مدح سرائی میں غلو کرتے ہیں اور آجکل
احمدیوں کو توہین رسالت کا مرتکب سمجھتے ہیں۔

غیر مقلدین کون
ہیں؟

غیر مقلدین میں دو
فرقے نمایاں ہیں ۔ 1۔ اہل قرآن اور 2۔ اہل حدیث

اہل قرآن کے نزدیک
صرف قرآن کی اتباع کرنی چاہیئے اور وحی اللہ تعالیٰ کی وحی ہونے کی وجہ سےقابل
تقلید ہے۔ احادیث کو اہل قرآن دینی مآخذ نہیں سمجھتے اور ان کو صرف ایک تاریخی
اہمیت کی حامل تصور کرتے ہیں۔ ایسا ہی اہل حدیث بھی نہ صرف قرآن و سنت کو قابل
تقلید سمجھتے ہیں بلکہ ان کے علمی آباء  نے
السنۃ
قاضیۃ علی کتاب اللہ
  (یعنی حدیث
نبوی ﷺ کتاب اللہ پر حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔)کا نعرہ بھی لگایا۔ مثلاً اوزاعی نے
مکحول سے نقل کیا کہ
الکتاب أحوج إلی السنة من السنة إلی
الکتاب
 (یعنی 
قرآن حدیث  کا زیادہ محتاج ہے  بنسبت حدیث کتاب اللہ کے)
(جامع بیان العلم جلد 2 ص
191
 ) یحیٰ بن ابی کثیر نے تو
یہاں تک کہہ دیا کہ اگر قرآن و حدیث میں تضاد ہو تو حدیث کو مقدم کر لو ۔
(تفسیر منسوخ القرآن
تالیف رحمت اللہ طارق صفحہ 4
 )

غیر مقلدین کے
تقلید کے بطلان  میں دلائل

تقلید کے حوالہ سے امام احمد بن حنبل
کا ایک بہت اہم قول  ملتا ہے جس میں آپ
فرماتے ہیں:۔


لاتقلدني لا تقلد مالكًا ولا الثوري
ولا الأوزاعي وخذ من حيث أخذوا”

یعنی تو ُنہ تو میری تقلید کر نہ ہی
(امام) مالک کی نہ سفیان ثوری کی اور نہ ہی اوزاعی کی ۔ تو وہاں سے (دینی علم لے)
جہاں سے انہوں نے لیا۔ (
مسائل خلافیۃ حار فیھا اھل السنۃ از شیخ علی آل محسن صفحہ 130)

تقلید کے متعلق ہی حضرت امام ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

” مثل الَّذِي يَطْلُبُ الْعِلْمَ بِلا حُجَّةٍ , مثل
حَاطِبِ لَيْلٍ يَحْمِلُ حَطَبًا فِيهَا أَفْعَى , تَلْدَغُهُ وَهُوَ لا يَدْرِي

یعنی اس شخص کی مثال جو علم بغیر دلیل
کے حاصل کرتا ہے اس شخص کی طرح ہے جو رات کے اندھیرے میں ایسا ایندھن اکٹھا  کرتا ہے جس میں ایک سانپ ہو اور وہ سانپ اس کو
ڈس لے اور اس کو معلوم ہی نہ ہو۔

علامہ البانی نے اپنی کتاب اصل صفۃ
صلاۃ النبی ﷺ میں تقلید کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ کا ایک قول  لکھا ہے وہ فرماتے ہیں:۔

“لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا؛ ما لم يعلم من أين
أخذناه”

یعنی یہ کسی کے لئے بھی مناسب نہیں کہ
وہ ہمارے قول کو (آنکھیں بند کر کے) لےلے اور اس کو یہ علم نہ ہو کہ اس کی دلیل ہم
نے کہاں سے لی۔

ایک اورروایت میں ملتا ہے،

” حرام على مَن لم يعرف دليلي أن يُفتي بكلامي “.

یعنی 
یہ بات قطعی ناجائز ہے کہ کوئی شخص میری دلیل کو جانے بغیر میرے کسی کلام
کے حوالہ سے فتویٰ دے ۔(
اصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه
وسلم 
از محمد ناصر الدين الالبانی جلد 1 صفحہ 24)

حضرت امام مالک کا ایک قول تقلید کے برخلاف ملتا ہے ،

“نُقِلَ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: أَنَا بَشَرٌ
أُخْطِئُ وَأُصِيبُ، فَانْظُرُوا فِي رَأْيِي، فَمَا وَافَقَ الْكِتَابَ
وَالسُّنَّةَ فَخُذُوا بِهِ، وَمَا لَمْ يُوَافِقْ فَاتْرُكُوهُ”

حضرت امام مالک سے نقل کیا گیا ہے کہ
آپ نے فرمایا، میں تو ایک بشر ہوں بعض اوقات غلطی کر جاتا ہوں اور بعض دفعہ درست
کہہ دیتا ہوں۔ سو  میری رائے کہ چھان پھٹک
اچھی طرح کر لیا کرو اور (میری آراء میں سے) جو بھی کتاب و سنت سے موافقت رکھے اسے
قبول کرو اور جو اس سے موافقت نہ رکھے اس کو چھوڑ دو۔(
ارشاد الفحول الی تحقيق الحق من علم الأصول از محمد بن علی بن محمد بن عبد الله
الشوكانی اليمنی جلد 2 صفحہ 243)

غیر مقلدین کے
عقائد و نظریات

1۔ اہل قرآن

مولوی
ثناء اللہ امرتسری نے برصغیر میں اہل قرآن اور اس کے سربراہ کے بارہ میں ایک بار
لکھا:۔

ہندوستان میں سب
سے پہلے سرسیداحمد خان علی گڑھی نے حدیث کی حجیت سے انکار کی آواز اٹھائی۔ ان کے
بعد پنجاب میں مولوی عبداللہ چکڑالوی مقیم لاہور نے ان کا تتبع کیا بلکہ سرسید
مرحوم سے ایک قدم آگے بڑھے۔ کیونکہ سرسید حدیث کو شرعی حجت نہ جانتے تھے لیکن عزت
واحترام کرتے تھے۔
واقعاتِ نبویہ
ﷺ کا صحیح ثبوت کتب ِاحادیث سے دیتے تھے۔ برخلاف ان کے مولوی عبداللہ چکڑالوی حدیث
ِنبوی ﷺ کو ‘لہو الحدیث’ سے موسوم کیا کرتے۔”
(حجیت حدیث اور اتباع رسول، از
مولوی  ثناء اللہ امرتسری، امرتسری کتب
خانہ ثنائیہ،1929، صفحہ 1)

برصغیر میں فرقہ اہل قرآن
کے پیش رو زعماء میں سرسیداحمدخاں، مولوی چراغ علی، مولوی عبداللہ چکڑالوی، مولوی
احمدالدین امرتسری، حافظ اسلم جیراج پوری اور چوہدری غلام احمد پرویز
  رہے ہیں۔

·      اہل قرآن (اہل تشیع کی
طرح) تین نمازوں کے قائل ہیں، ان میں سے ایک گروہ دو نمازوں جبکہ ایک اور گروہ صرف
ایک نماز کا قائل ہے۔
(لاہوری طلوعِ اسلام ص61، اگست 1950؁)

·      روایات (احادیثِ نبویہ ﷺ)محض تاریخ ہے، غلام احمد پرویز
صاحب کہتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺکی سنّت اور
احادیث مبارکہ دین میں حجت نہیں ۔رسول اللہ ﷺ کے اقوال کو رواج دیکر جو دین میں
حجّت ٹہرایا گیا ہے یہ دراصل قرآن مجید کی خلاف عجمی سازش ہے ۔۔
(طلوع
اسلام ص49ماہِ جولائی 1950؁ء )
(یہ نظریہ بھی
آجکل بہت پھیلا ہوا ہے کہ اسلام کو عجمیوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔۔۔اس کی تفصیل)

·      حج
ایک بین الملّی کانفرنس ہے اور حج کی قربانی کا مقصد بین الملّی کانفرنس میں شرکت
کرنے والوں کیلئے خورد نوش کا سامان فراہم کرنا ہے۔مکّہ معظمہ میں حج کی قربانی کے
سوا اضحیہ (عید کی قربانی )کا کوئی ثبوت نہیں۔
(رسالہ
قربانی از طلوع اسلام  )

2۔ 
اہل حدیث

ہم
پہلے یہ بات کر آئے ہیں کہ سنت کو معلوم کرنے کا طریق حضرت امام شافعی اور حضرت
امام احمد بن حنبل کے ہاں حدیث بلکہ صحیح احادیث کے ذریعہ تھا۔ اگر اس صورت کو
دیکھا جائے تو ان دونوں میں سے بالخصوص حضرت امام احمد بن حنبل کو اہل حدیث کا
بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بہر حال یہ فرقہ گیارہویں صدی 
ہجری (سترویں صدی عیسوی) میں محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کے دوران منظر
عام پر آیا۔
 اہل الرائے اور اہل القرآن کے برخلاف اس تفرقے میں احادیثِ نبویﷺ کی اسناد پر زور دیا جاتا ہے یعنی اہل الرائے کی طرح تقلید پر قائم نہیں ہوتے یہ لوگ آئمہ اہلسنت کی تقلید نہیں کرتے یہ
خود اجتہاد کرتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ سب بدعت کے قریب ہیں اور ہم بدعت سے دور
ہیں۔محمد بن عبدالوہاب کی وجہ سے ان کو وہابی(پاک و ہند ) بھی کہا جاتا ہے۔ان کو
اثری یا سلفی(عرب اور افریقہ میں) بھی کہا جاتا ہے۔

اہل حدیث کے عقائد و
نظریات

·      
اہل سنت والجماعت
کے نزدیک عقیدہ کے مآخذ تین ہیں، کتاب اللہ، سنت صحیحہ اور سلف صالحین کا اجماع۔

·      
قرآن و حدیث کے
معنی سمجھنے کے سلسلے میں واضح نصوص، سلف صالحین کے فہم کو ہی مرجع قرا دیا جائے
گا۔

·      
دین کے تمام
بنیادی اصول نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی میں نہایت واضح طور پر
بیان فرما دیے تھے لہذا اب کسی کے لیے اس میں نئی چیز نکالنے کی گنجائش نہیں ہے۔

·      
اللہ تعالی کی
صفات کو بے مثال ماننا: اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے طرح نہ سمجھا جائے اور
نہ ہی اس مشابہت ( کے اندیشے) کے پیش نظر ان صفات کا انکار ہی کیا جائے۔

·      
وحدت
الوجود
 اور اللہ تعالی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا
یا مخلوق اور خالق کے یکجان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کردینے والا کفر ہے۔

·      
کرامات اولیاءکے
حوالہ سے  بریلویوں کے برخلاف بہت محتاط
ہیں۔

·      
 معجزے اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ نبی علمِ
وحی کی بنا پر معجزے کا دعویدار ہوتاہے، جبکہ ولی کسی کرامت کا دعوی نہیں کرسکتا،
کیونکہ اسے نہ وحی آتی ہے، نہ
 علمِ
غیب
 ہی ہوسکتا ہے، بلکہ عام لوگوں کی طرح اُسے
بھی کرامت کا پتہ اس کے وقوع ہونے کے بعد ہی چلتا ہے۔

·      
عالم الغیب اللہ
کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ البتہ اللہ اپنے رسولوں کو
جس قدر چاہتا ہے امور غیب میں سے مطلع فرماتاہے۔

1.     وسیلے
کی تین اقسام ہیں
 :جائز: اللہ تعالی کی طرف اس کے اسماء وصفات
کو وسیلہ بنانا یا اپنے کسی نیک عمل یا کسی بقید حیات بزرگ کی دعا کو وسیلہ بنانا
مباح ہے۔بدعت: ایسی چیز کو وسیلہ بنانا جو شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو بدعت ہے مثلا
انبیا و صالحین کی ذات یا ان کی بزرگی کو وسیلہ بنانا۔شرک: کسی فوت شدہ بزرگ کی
وساطت سے عبادت کرنا یا اس سے دعا کرنا، اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا۔

·      
برکت: برکت صرف
اللہ تعالی کی جانب سے ہوتی ہے، اللہ تعالی اپنی جس مخلوق میں چاہتاہے برکت فرما
دیتا ہے، بر کت سے مراد خیر کی کثرت اور زیادتی اور اس کی ہمیشگی ہے،

1.     جس
چیز کے باعث برکت ہونے کی دلیل نہ ہو، اس سے حصول تبرک ناجائز ہے۔ قبروں کی زیارت
اور ان کے پاس جو لوگ اعمال کرتے ہیں وہ حسب ذیل تین اقسام کے ہوتے ہیں۔جائز: آخرت
کی یاد کے لیے، اہل قبور کو سلام کرنے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے لیے
جانا، یہ اعمال قبروں پر کرنا مباح ہیں۔بدعت:جو امور توحید کی روح کے منافی اور
شرک کا سبب ہیں جیسے ؛ قبر پر عبادت کو تقرب الہی کا ذریعہ سمجھنا، قبروں سے برکات
حاصل کرنا، ثواب بخشانا، پختہ بنا کر مزار کی شکل دینا، رنگ وروغن کرنا، چراغ
جلانا، چادریں چڑھانا، عبادت گاہ بنانا اور ان کی طرف رخت سفر باندھنا بدعت کے کام
ہیں۔شرک: ایسی زیارت میں عبادات کی مختلف شکلیں شامل ہوتی ہیں، مثلا زائر کا صاحب
قبر کو پکارنا، اسے غوث سمجھنا، فریاد کرنا، مدد مانگنا، قبر کے گرد طواف کی طرح
چکر لگانا، اس کے نام کا چڑھاوا دینا اور نذر و نیاز ماننا۔

·      
امارت کبری: یہ
عقیدہ بہت دلچسپ ہے۔خلیفہ /حکمران کا انتخاب اجماع امت یا اہل حل وعقد کی بیعت کے
ذریعے ہوتا ہے، اگر کوئی شخص اقتدار پر قابض ہو گیا اور امت نے اس کے اقتدار کو
تسلیم کر لیا تو بھلائی اور نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت اور خیر خواہی فرض ہوگی
اور اس کے خلاف بغاوت حرام ہوگی سوائے اس بات کے کہ حاکم کفر کا مرتکب ہو۔ اسی
عقیدے کی بناء پر یہ یزید کی حکومت کو جائز قرار دیتے ہیں۔

جعفریہ

اس
کو یہاں الگ سے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں تقلید کے حوالہ سے ملا جلا رجحان
پایا جاتا ہے۔ اہل التشیع کے ہاں عقیدہ امامت ہے اور وہ یہ مانتے ہیں کہ بموجب
حدیث نبوی ﷺ کہ بارہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہلا
اور حضرت امام مہدی (مہدی منتظر) کو آخری امام سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک آئمہ انبیاء
کی طرح معصوم ہوتے ہیں تو گویا وہ جو بھی کہیں گے وہ خدا کی جانب سے ہو گا۔امام
محمد مہدی کی غیبوبت کے دوران ان میں مجتہدین کی تقلید کا معاملہ اٹھا۔ اہل التشیع
کے نزدیک مسائل دو قسم کے ہیں۔

 1۔ اصولی مسائل جن میں توحید ، صفات پروردگارمثلاًعدل
وغیرہ نبوت، امامت اورقیامت سے متعلق مسائل شامل ہیں۔

2۔ فروعی مسائل جن میں
مسائل عبادات و معاملات وغیرہ شامل ھیں۔

ان
کے نزدیک یہ بات مسلم ھے کہ اصولی مسائل میں تقلید نہیں ہو سکتی!

شیعہ کس کی تقلید کرتے ہیں؟ شیعہ مجتہدین
کی تقلید کرتے ہیں۔اب “مجتہد وہ شخص ہے جو لوگوں کے مذہبی، معاشرتی، اجتماعی
معاملات اور زندگی کے دیگر امورو مبتلا بہ مسائل کو دلائل و براھین کے ذریعے ان کے
مدارک سے اخذ کرے ۔ بالفاظ دیگر مجتھد وہ ہوتا ہے جو آفاقی قوانین و وظائف انسانی
کہ جنہیں خداوند متعال نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے،کو ان کے مآخذ و
مدارک سے اخذ کرے تاکہ ان پر وہ خود اور دیگرافراد عمل پیرا ہو سکیں ۔”

ان کے برخلاف ایک گروہ ہے جو تقلید کو
حرام سمجھتا ہے۔ بینادی طور پر شیعہ حضرات میں دو گروہ ہیں۔ 1۔ اصولی اور دوسرا
اخباری۔

اخباری شیعہ
امامیہ فقہا کا ایک ایسا گروہ ہے جو فقط احادیث و روایات کو فقہ اور استبناط و
استخراج احکام شرعی کا منبع و ماخذ مانتا ہے۔ یہ گروہ جو گیارہویں صدی ہجری کے بعد
وجود میں آیا ہے وہ اجتہاد کے لیے استعمال ہونے والی راہ و روش اور علم اصول کو
صحیح نہیں سمجھتا ہے۔ جبکہ ان کے برخلاف
اصولی فقہا
احکام فقہی کے استنباط و استخراج کے لیے اجتہاد کی راہ و روش اور اصول فقہ کو لازم
و ضروری سمجھتے ہیں۔


 

جماعت احمدیہ اور مسئلہ تقلید

آپؑ کی بعثت کے وقت مسلمانوں کی حالت:

خانہ
کعبہ میں چاروں مذاہب فقہ کے الگ الگ مصلّے

 “یہ تو ظاہر ہے کہ انجام کار انہی
اصولوں یا مدارات کی طرف لوگ آجاتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ ایک فریق دُنیا میں
بکثرت پھیل گیا ہے جیسا کہ آج کل حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی باوجود اُن سخت
اختلافات کے جن کی وجہ سے
مکہ معظمہ کی ارضِ مقدّسہ بھی ان کو ایک
مصلّے پر جمع نہیں کرسکی
ایک دوسرے سے
مخالطت اورملاقات رکھتے ہیں۔” (مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ498)

آئمہ اربعہ کی حیثیت

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر
کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ ایک مولوی حضرت
مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جب
وہ آپ سے ملا تو باتوں باتوں میں اس نے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور
تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں وغیرہ ذالک۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے
خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔
میں تو
ان چار اماموں کو مسلمانوں کے لئے بطور ایک چاردیواری کے سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے
وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اس بات کی
اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے۔ پس اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل
و نااہل آزادانہ طورپر اپنا طریق اختیار کرتا۔ اورامتِ محمدیہ میں ایک اختلاف
عظیم کی صورت قائم ہوجاتی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چار اماموں نے جو اپنے علم
و معرفت اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں کو
پراگندہ ہوجانے سے محفوظ رکھا۔ پس یہ امام مسلمانوں کے لئے بطور ایک چار دیواری کے
رہے ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے اوران کی بزرگی اوراحسان کے معترف ہیں۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود
علیہ السلام یوں تو سارے اماموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ
کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی
بہت تعریف فرماتے تھے۔”(سیر ت المہدی جلد1صفحہ334)

تقلید کی بھی کسی قدر ضرورت ہے

 “ایک
دفعہ ایک واعظ ایسے طرز پر حضرت ؑ کے سامنے گفتگو کرتا تھا کہ گویااس کے نزدیک
حضرت ؑ بھی فرقہ وہابیہ کے طرفدار ہیں اور اپنے تئیں بار بار حنفی اور وہابیوں کا
دشمن ظاہر کرتا تھا اور کہتا تھا کہ حق کا طالب ہوں۔ اس پر حضرت ؑ نے فرمایا: اگر
کوئی محبت اور آہستگی سے ہماری باتیں سُنے تو ہم بڑی محبت کرنے والے ہیں اور
قرآن اور حدیث کے مطابق ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی اس طرح فیصلہ کرنا
چاہے کہ جو اَمر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہو، اُسے قبول کرلے گا
اورجو ان کے بر خلاف ہواُسے رَد کردے گا ۔ تو یہ امر عین سرور، عین مدعا ہے اور
عین آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے۔ ہمارے
نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک اباحت ہے۔ کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔
ذرا سا
علم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں ہو جاتا۔ کیا وہ اس لائق ہے کہ سارے متقی
اور تزکیہ
کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہو
جاوے۔ قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے
جاتے۔ ہمارے ہاں جو آتا ہے۔ اُسے پہلے ایک حنیفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے۔ میرے
خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چاردیوار۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیدا کئے جو نہایت متقی
اورصاحبِ تزکیہ تھے۔ آج کل کے لوگ جو بگڑتے ہیں اِس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں
کی متابعت چھوڑ دِی گئی ہے۔ خدا تعالیٰ کو دو قسم کے لوگ پیارے ہیں۔ اوّل وہ جن کو
اللہ تعالیٰ نے خود پاک کیااور علم دیا۔ دوم وہ جوان کی تابعداری کرتے ہیں۔ ہمارے
نزدیک ان لوگوں کی تابعداری کرنے والے بہت اچھے ہیں۔ کیونکہ ان کو تزکیہ نفس عطا ء
کیا گیا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے قریب کے ہیں مَیں نے
خود سُنا ہے کہ بعض لوگ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے حق میں سخت کلامی کرتے ہیں
۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے۔”(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب
صفحہ277،278)

کیا ہم احمدی حنفی مقلد ہیں؟ ایک غلط
فہمی ۔۔۔

  شریعت کے عملی حصہ میں سب سے اوّل
قرآن مجید ہے۔ پھر احادیثِ صحیحہ جن کی سُنّت تائید کرتی ہے ۔ اوراگر کوئی مسئلہ
اِن دونوں میں نہ ملے تو پھر میرا مذہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جائے کیونکہ
اس کی کثرت اِس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی مرضی یہی ہے مگر ہم کثرت کو قرآن مجید
واحادیث کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتے ہیں ۔ اس (فقہ حنفیہ کے)کے بعض مسائل ایسے ہیں
کہ قیاس صحیح کے بھی خلاف ہیں۔ ایسی حالت میں احمدی علماء کا اجتہاد اولیٰ بالعمل
ہے
،”(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ209)

غیر
مقلدین سے بھی تعصب نہ رکھو

حضرت
پیر سراج الحق  ؓصاحب نعمانی تحریر کرتے
ہیں
:

 ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا
کہ حضور یہ وہابی غیر مقلد ناپاک فرقہ (میں اس وقت سخت متعصب حنفی تھا) جو ہے اس
کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ سُن کر اور ہنس کر خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ
دیا۔ دوسرے روز پھر میں نے ذکر کیا ۔
فرمایا کہ یہ فرقہ
بھی خدا کی طرف سے ہے بُرا نہیں ہے۔ جب لوگوں نے تقلید اور حنفیت پر یہاں تک زور
دیا کہ ائمہ اربعہ کو منصبِ نبوت دے دیا تو خدا نے اپنی مصلحت سے اس فرقہ کو پیدا
کیا تاکہ مقلد لوگ راہِ راست اور درمیانی صورت میں رہیں۔
صرف
اتنی بات ان میں ضرور بُری ہے کہ ہر ایک شخص بجائے خود مجتہد اور امام بن بیٹھا
اور ائمہ اربعہ کو بُرا کہنے لگا۔
“( تذکرۃ
المہدی صفحہ 213،214)

مسئلہ تقلید سے متعلق ایک ضروری بات:

جماعت احمدیہ نہ اندھا دھند تقلید کو
مانتی ہے نہ ہی اس کا کلیۃً انکار کرتی ہے۔اگر قرآن کریم کی طرف بغور دیکھا جائے
تو اس معاملہ میں جماعت کے نکتہ نظر کو دو آیات بڑی وضاحت سے تقویت دیتی ہوئی نظر
آتی ہیں۔

قُلْ هَذِهِ
سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي
وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔ (یوسف: 109)


وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآَيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا
وَعُمْيَانًا۔(الفرقان : 74)

یعنی جس بات کی طرف آپ لوگوں کو
بلائیں اس پر پہلے خود علیٰ وجہ البصیرۃ قائم ہوں۔ اس کے معروضات، فروعات اور گہری
تفاصیل سے اچھی طرح واقفیت ہو۔اندھا دھند تقلید نہ ہو۔ اس بات پر پختہ ایمان و
ایقان ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یا آپ کے خلفاء نے اگر کوئی حکم دیا
تو اس  میں گہری حکمتیں پنہاں ہیں۔ان گہری
حکمتوں سے واقفیت ہو اور اس واقفیت کے نتیجے میں ایک بصیرت پر قائم ہوں۔ گہرا علم
ہو کہ جو حکم دیا گیا ہے اتباع کے لئے اس کی کیا بنیاد ہے۔ ان حکمتوں پر غور کر کے
اور جس جانب ہمارے خلفائے کرام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے جانا چاہتے ہیں
اس منزل کا تعین کر کے اس کی طرف جلد پہنچنے کے لئے جو بھی اسباب مطلوب ہوں ان کو
بروئے کار لایا جائے۔اب دیکھیں کہ مسئلہ تقلید میں کتنا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو
دور کرنے کے لئے ایک حکم عدل کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے کی۔ اب اس مقام حکم و
عدل پر خلافت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے۔

بعض معاملات میں پھر جماعت کے نظام
میں نرمی ہےجیسے آمین بالجہر ، رفع السبابہ، بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا ان کے علاوہ
کئی اور معاملات میں جماعت میں دونوں طرح کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ان مسائل
کو لے کر مسلمان فرقوں نے ایک دوسرے کو کافر تک قرار دے دیا ۔ نصف الساق کے لئے
وہابیوں نے ایک بندے کی ڈیوٹی لگائی ہوتی ہے کہ ایک سوٹی سے ان لوگوں کے ٹخنوں پر
ضرب لگاؤ جن کہ پائنچے ٹخنوں سے اوپر نہیں ہوتے۔
البتہ بعض معاملات میں سختی ہے تا کہ جماعت
کا نظم و نسق خراب نہ ہو۔ مثلاً ایک مسلمان کو عیسائی کے ساتھ شادی کی اجازت ہے
مگر ہم جماعت میں احمدی کو احمدی سے شادی کرنے کی طرف زور دیتے ہیں ان کا تعلق
جماعت کے نسق اور وحدت  کے ساتھ ہے۔ان
معاملات میں کمپرومائز نہیں کیا جاتا، گویا تقلید کی جاتی ہے۔۔ بعض مسائل میں نسق
کو تدریجاً قائم کیا جاتا ہے۔(مثلاً افریقہ کی جماعتوں میں احمدیوں کا رفع الیدین
کرنا، پردے کے مسائل وغیرہ) تو معلوم ہوا کہ ان دونوں طرح کے معاملات میں غور کی
ضرورت ہے اور حکمت کو تلاش کر کے احکامات پر عمل کرنے اور کروانے کی ضرورت ہے۔نئے
مسائل کے حل کے لئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اجتہاد کا دروازہ
کھولا۔

اجتہاد کی ضرورت

ہماری
جماعت کو علمِ دین میں تَفَقُّہْ پیدا کرنا چاہئے
۔ مگر اس کے وہ
معنے نہیں جو عام ملّاں لوگوں نے سمجھ رکھے ہیں کہ استنجاء وغیرہ کے چند مسائل
آگئے وہ بھی تقلیدی رنگ میں فقیہ بن بیٹھے۔ بلکہ
ہمارا مطلب یہ ہے
کہ وہ آیاتِ قرآنی واحادیث نبوی اورہمارے کلام میں تدبّر کریں۔قرآنی معارف و
حقائق سے آگاہ ہوں
۔   
   “(بدر25اپریل 1907ء صفحہ4)

اس
ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہوگئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا
موجود ہے اسی لئے
اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔
‘‘
(البدر یکم و8نومبر1904ء صفحہ8)

حضرت
مسیح موعود ؑ نے  فرمایا ،

               ’’اِفْتَرَقَتِ الْأُمَّۃُ، وَتَشَاجَرَتِ
الْمِلَّۃُ فَمِنْہُمْ حَنْبَلِیٌّ وَشَافِعِیٌّ وَ مَالِکِیٌّ وَحَنَفِیٌّ
وَحِزْبُ الْمُتَشَیِّعِیْنَ۔ وَ لَا شَکَّ اَنَّ التَّعْلِیْمَ کَانَ وَاحِدًا
وَّلٰکِنِ اخْتَلَفَتِ  الْاَحْزَابُ
بَعْدَ ذَالِکَ فَتَرَوْنَ کُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحِیْنَ۔ وَ کُلُّ
فِرْقَۃٍ بَنٰی لِمَذْھَبِہِ قَلْعَۃً وَلَا یُرِیْدُ أَنْ یَّخْرُجَ مِنْھَا
وَلَوْ وَجَدَ اَحْسَنَ مِنْھَا صُوْرَۃً وَکَانُوْا لِعَمَاسِ اِخْوَانِھِمْ
مُتَحَصِّنِیْنَ  
فَاَرْسَلَنِیَ
اللّٰہُ لِأَسْتَخْلِصَ الصِّیَاصِی وَأَسْتَدْنِیَ الْقَاصِی، وَاُنْذِرَ
الْعَاصِی، وَیَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَیَکُوْنَ الْقُرْآنُ مَالِکَ
النَّوَاصِی وَ قِبْلَۃَ الدِّیْنِ
۔‘‘(آئینہ کمالاتِ
اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ559،560)

ترجمہ:
امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی ، شافعی، مالکی
، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک
ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اورہرگروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہوگیا۔  ہرفرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنارکھا
ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ،خواہ دوسری طرف انہیں بہتر صورتحال ملے
اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔
پس اللہ نے اس
صورتحال میں مجھے بھیجا تاکہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دورہوچکے
ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کردوں اور اس طرح اختلاف رفع
ہوجائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *